حضرت سید جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ نے اپنے ملفوظات میں یہ واقعہ درج کیا ہے کہ میں مکہ معظمہ کی زیارت کے بعد بھکر واپس آیا تو وہاں کے لوگوں نے مجھے بتایا کہ قصبہ الور کے قریب ایک پہاڑ کے غار میں ایک درویش رہتا ہے۔ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خداوند کریم نے اس کو نماز معاف کر دی ہے۔ میں یہ سن کر اس درویش کے پاس گیا وہاں دیکھا کہ اس کے گرد بڑے بڑے امراء اور اکابر جمع تھے۔ میں ان میں سے گزرتا ہوا اس درویش کے سامنے جا کر بیٹھ گیا۔ سلام اس کو میں نے دانستہ نہیں کیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے۔ سرور دوعالمﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔’’ترجمہ! یعنی مومن اور کافر کے درمیان صرف نماز ہی فرق کرتی ہے‘‘۔ درویش نے جواب دیا سید صاحب میرے پاس جبرائیلؑ آتے ہیں۔ بہشت کا کھانا لاتے ہیں خدا تعالیٰ کا سلام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم کو نماز معاف کر دی گئی ہے اور تم خاصان خدا میں شامل ہو گئے ہو‘‘۔
مجھے اس کی باتیں سن کر بہت غصہ آیا اور میں نے اس سے کہا، بیہودہ مت بکو سردار انبیاءﷺ کے لئے تو نماز معاف نہیں ہوئی۔ تجھ جیسے جاہل کے لئے کیسے ہو سکتی ہے۔ تیرے پاس جبرائیلؑ نہیں بلکہ شیطان آتا ہے اور کہتا ہے میں جبرائیلؑ ہوں جبرائیل علیہ السلام وحی کے فرشت ہیں وہ انبیاء اور رسل کے سوا کسی اور پاس کے نہیں آتے اور جو کھانا تمہارے پاس آتا ہے وہ غلاظت ہوتی ہے۔ درویش نے کہا کہ وہ کھانا بہت لذیذ ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ اس کی حقیقت تجھے بہت جلد معلوم ہو جائے گی اب جب وہ نام نہاد فرشتہ تیرے پاس آئے تو تم لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھنا۔ یہ تاکید کر کے اپنی قیام گاہ پر واپس آگیا۔ دوسرے دن جب میں اس دروپیش کے پاس گیا تو وہ میرے پاؤں پر گر پڑا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ کے کہنے کے مطابق عمل کیا۔ جب وہ نام نہاد فرشتہ آیا تو میں نے لاحول پڑھی وہ اسی وقت وہاں سے غائب ہو گیا اور اس کا لایا ہوا کھانا میرے ہاتھ سے گر پڑا اور میرے سارے کپڑے ناپاک ہو گئے۔ یہ سن کر میں نے اس بے نماز درویش سے توبہ کرائی اور جو نمازیں ترک ہو چکی تھیں ان کی قضا پڑھوائی۔